Orhan

Add To collaction

غلط فہمیاں

غلط فہمیاں
از حورین 
قسط نمبر11


کافی دیر بعد وہ اسے دیکھنے کی غرض سے اٹھا ۔کمرے کے دروازہ کھولتے ہی اسکی نظر سامنے فرش پے پڑی کشش پے پڑی پہلے وہ کچھ پریشان ہوا لیکن پھر اس نے سوچا کے خود ہی اٹھ جائے گی کچھ دیر میں تو وہ وہ باہر چلا گیا
 لیکن پھر کمرے میں جانے کے کچھ دیر بعد ہی اسے بے چینی سی ہوئی تو پہلے کچن میں گیا اور فرج سے پانی کی بوتل نکالی اور اس کمرے کا رخ کیا 
وہ ابھی بھی ویسے ہی تھی ۔اس نے بوتل کھول کے ساری اس پر انڈیل دی تو وہ گھبرا کے ٹھنڈا پانی گرنے کی وجہ سے اٹھی جبکہ وہ اس سے کچھ بھی کہے بغیر واپس چلا گیا اور اس نے شکر کیا کہ کم از کم اب وہ باہر تو جا سکتی یہی سوچتے وہ جلدی سے باہر گئی اور کمرے میں بند ہو گئی 
💞💞💞💞
حوریہ اپنے کمرے میں پڑھائی کر رہی تھی جب دروازہ نوک ہوا 
ماما آپکو کتنی بار کہا ہے میرے روم نوک کر کے انے کی ضرورت نہیں آپکا اپنا ہی ہے جب ۔وہ بول رہی جب سر اٹھا کے دیکھا تو سامنے وہاج کھڑا اسے ہی دیکھ رہا تھا 
آپ ؟مجھے لگا ماما ہیں ۔وہ کچھ حیران ہوئی۔اور اٹھ کے کچھ آگے گئی  
جی بس میں یہ آپکو دینے آیا تھا ۔اس نےآگے آ کے ایک گفٹ اسکی جانب بڑھایا 
یہ میرے لئے کیوں اس نے ناسمجھی سے اسکی طرف دیکھ کے پوچھا ۔
نہیں میں ماما بابا کے لئے بھی لایا تھا تو آپ کے لئے بھی لے لیا ۔اس نے تفصیل بتائی 
شکریہ ۔اس نے وہ پکڑتے ہوئے کہا 
اللّه حافظ ۔وہ یہ کہتا باہر کو چل دیا 
اللّه حافظ ۔اس نے ہلکی آواز میں کہا اور دروازہ بند کیا
💞💞💞💞  
لندن 
آج وہ لوگ لندن پوھنچے تھے اور ابھی راستے میں تھے وہ سیٹ کی پشت سے سر ٹکا کے بیٹھی تھی اور اپنے گھر والوں کو یاد کر رہی تھی کل ہی اس نے اسے بتایا تھا کے وہ لوگ کل لندن جائیں گے اب اس نے مزاحمت نہ کی کیونکہ وہ جان گئی تھی وہ اس پے ترس کرنے والا نہیں ہے اب وہ یہی سوچ رہی تھی کہ اس کے گھر والے کہاں ڈھونڈیں گے 
گاڑی رک گئی وہ باہر نکلا اور اسے بھی باہر آنے کا کہاجب وہ باہر نکلی تو اس نے ہاتھ اس کے کاندھے پے رکھا اور اندر چل دیا اور اس وقت اس کے چہرے پے کوئی تاثر نہیں تھا 
موم ڈیڈ نور کم ہیئر ۔اندر جا کے اس نے سب کو بولایا زری بیٹا تم کتنے دن ہو گئے گھر سے ہوئے۔مریم بیگم نے کمرے باہر آتے زارون کے گلے لگ کے کہا ۔تب ہی نور بھاگتے ہوئے باہر آئ 
زری بھائی مینے آپکا بہت انتظار کیا اور اور کیا سرپرائز تھا میرے لئے ۔نورالعین نے خوشی سے پوچھا 
نور مینے کہا تھا نہ کے یہ مت کہا کرو مجھے اور ہاں یہ ہے سرپرائز تمہاری بھابھی ۔اس نے دور کھڑی کشش کو سامنے لاتے کہا جبکہ اسکی بات سن کے وہ دونوں حیران ہو گئیں 
زری بیٹا یہ کیا کہ رہے ہو تم 
موم میں ٹھیک کہ رہا ہوںمینے شادی کر لی ہے یہ ہے کشش مرتضیٰ ڈاٹر اوف مرتضیٰ احمد فروم پاکستان اینڈ ناؤ مسز زارون علی ۔اس نے اسکا مکمل تعرف کرواتے کہا 
زارون تم یہ کیا کہ رہے ہو تم نے شادی کر لی وہ بھی ہمیں بنا بتایے ۔انہوں نے صدمے کی سی کیفیت میں کہا جبکہ نور خاموش کھڑی تھی کیونکہ اسے معصوم سی دکھنے والی کشش پسند آئی تھی 
اؤ کم اون موم کچھ نہیں ہوتا اس سے چھوڑیں ان باتوں کو اور ویسے بھی آپ ہی تو چاہتی تھیں کہ میں شادی کر لوں ۔اس نے صوفے پے بیٹھتے کہا اور ساتھ کشش کو بھی کہا 
ہاں لیکن ایسے تو نہیں نہ تمہارے ڈیڈ کو معلوم ہوگا تو وہ خفا ہونگے 
نہیں موم انھیں پہلے سے معلوم ہے مینے پہلے ہی بتا دیا تھا 
لیکن زری پھر بھی یہ بہت بری حرکت کی ہے تمنے خیر نور جاؤ بھابھی کو روم میں لے جاؤ ۔انہوں نے نور kکو کہا 
جی موم چلیں بھابھی ۔اس نے کشش کے پاس آ kکے کہا جبکہ وہ زارون کی طرف دیکھنے لگی اور وہ اسکی  طرف نہیں دیکھا رہا تھا تو اسکے ساتھ چل دی 
💞💞💞💞
انھیں لندن آے دو ماہ ہو چکے تھے اور اس دوران ان کے درمیان زیادہ بات نہیں ہوئی رات کو وہ jجب سو جاتی تب آتا اور صبح اس کے اٹھنے سے پہلے ہی چلا جاتا لیکن اس دوران اسکی مریم بیگم اور نور سے اچھی بات چیت ہو جاتی تھی خاص کر نور سے وہ ہنس مکھ سی لڑکی تھی جو اسے اچھی لگی
    اور اس دوران زارون نے اسے کوئی تکلیف بھی نہیں پوھنچائ تھی وہ اب پر سکون تھی لیکن اپنے ماما بابا سے وہ بات نہیں کر سکی تھی اس وجہ سے کچھ اداس بھی تھی 
💞💞💞💞
        واہ حوریہ یہ وہاج بھائی نے دیا تمہیں کتنا خوبصورت ہے نہ۔عیشاء نے لاکٹ دیکھتے ہوئے کہا 
ہاں یار واقعی خوبصورت تو ہے اچھا تم بتاؤ آ رہی ہو نہ کل پھر بھائی کا برتھڈے کل ۔اس نے پوچھا 
ہاں یار دکھوں گی خیر ابھی یہ بتاؤ گفٹ کیا لیا ہے تم نے 
ہاں لیاہے ابھی نہیں بتا رہی میں اور چلو مجھے بھوک لگی کینٹین چلیں 
ہاں چلومجھے بھی لگی ہے پر بتا دو نہ یار ۔اس نے اٹھتے ہوئے کہا 
نہیں تو نہیں بس اب چلو جلدی بریک ختم ہو جائے گی ۔وہ جلدی جلدی چلتے بولی 
بدتمیز ۔وہ بھی بڑبڑا کے اس کے پیچھے چلی 
💞💞💞💞
     فاطمہ بیگم کی طبعیت کافی دنوں سے خراب تھی ۔انہوں نے کشش کو کئی جگہ ڈھونڈا پر نہ وہ ملی نہ زارون اور اب کشش کی جگہ علینا کا نکاح سادگی سے کاشان سے کر دیا گیا تھا اور وہ لوگ بھی مان گئے تھے 
مرتضیٰ صاحب اور حمزہ ابھی بھی کوشش میں تھے لیکن مرتضیٰ صاحب بھی اب ہمت ہار رہے تھے 
💞💞💞💞
آج وہاج کا برتھڈے تھا انہوں نے بس گھر کے لوگوں کے ساتھ ہی منایا تھا کیونکہ وہاج کو یہ سب پسند نہیں تھا اور وہاج نے اسے ڈنر کروانے کا وعدہ کیا تھا اور آج وہ لوگ ڈنر کے بعد سی سائیڈ آے تھے جبکہ شہناز بیگم اور امان صاحب ڈنر کے بعد ہی گھر چلے گئے تھے اور وہ دونوں ہی آے تھے یہاں 
اس وقت کم لوگ ہی تھے وہاں وہ دونوں چل رہے تھے جب وہاج نے کہا کہ 
آج میں تمہیں اپنے دل کی بات بتانا چاہتا ہوں۔اس نے محبت سے اسکی جانب دیکھ کے کہا  جبکہ وہ خاموش تھی 
 میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں شاید تب سے جب تمہیں پہلی بار دیکھا تھا اور میں یہ بھی جانتا ہوں اب تم بہت چینج ہو گئی ہو لیکن میں یہ بھی جانتا اندر سے تم اب بھی ویسی ہی ہو معصوم سی ۔
میں تمہیں ہمیشہ پاس دیکھنا چاہتا ہوں سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے ہر وقت تمہیں اپنی نظروں کے سامنے دیکھنا چاہتا ہوں ۔کیا تم میری زندگی میں شامل ہوگی بولو کیا تم ہمیشہ میرے پاس رہو گی کیا تم میری زندگی کو حسین بنا دو گی کیا میرے بچوں کی جنت بنو گی۔ سنجیدگی سے بول کے وہ آخر میں شرارت سے اسکا ہاتھ پکڑ کے بولا ۔وہ جو ہونک بنی اسے سن رہی تھی اسکی آخری بات پے چھنپ گئی ۔اس نے آج تک اس کے بارے میں ایسا کبھی نہیں سوچا تھا لیکن پھر بھی اس سے ایک جھجھک سی ہمیشہ سے تھی وہ اسکی وجہ کبھی نہیں جان پاتی کھ جیسے وہ اب باقی سب کے ساتھ رہتی ہے بولتی ہے اس کے سامنے وہ خود کو کتنا ہی پراعتماد ظاہر کر لے لیکن پھر بھی ایسا نہیں ہوتا 
لیکن اس کے خیال سے وہ ایک مکمل انسان تھا جو اسے خوشیاں بھی دے سکتا تھا اور پھر ان لوگوں کے کتنے احسانات ہیں اس پے وہ یہی سب سوچ رہی تھی جب وہ دوبارہ بولا 
تم جو بهى فىصله کرو گى مجهے منظور هو گا 

   1
0 Comments